اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا ﴿۲۱﴾} 

[قَالَ: انھوںؑ نے کہا] [كَذٰلِكِ: اس طرح سے] [قَالَ: کہا] [رَبُّكِ: آپ کے رب نے ] [هُوَ: وہ ] [عَلَيَّ: مجھ پر] [هَيِّنٌ: آسان ہے] [وَلِنَجْعَلَهٗٓ: اور تاکہ ہم بنائیں اس (لڑکے) کو] [اٰيَةً: ایک نشانی] [لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لئے] [وَرَحْمَةً: اور رحمت ہوتے ہوئے] [مِّنَا: ہماری طرف سے] [وَ کَانَ: اور وہ ہے] [اَمْرًا: ایک کام] [مَّقْضِيًّا: فیصلہ کیا ہوا]"

{فَحَمَلَتۡہُ فَانۡتَبَذَتۡ بِہٖ مَکَانًا قَصِیًّا ﴿۲۲﴾} 

[فَـحَمَلَتْهُ: پس انھوں نے اٹھایا اس (بچے) کو (پیٹ میں)] [فَانتَبَذَتْ: پھر وہ علیحدہ ہوئیں] [بِهٖ: اس کے ساتھ] [مَکَانًا قَصِيًّا: ایک دور والی جگہ میں]

نوٹ۔1: آیت۔22۔ میں دور والی جگہ سے مراد بیت لحم ہے۔ بی بی مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل کر وہاں جانا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑ باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر وہ شادی شدہ ہوتیں اور شوہر سے ہی ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال، سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لئے تن تنہا ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔ (تفہیم القرآن)

نوٹ۔2: قبل از اسلام یہ بھی عبادت میں داخل تھا کہ بولنے کا روزہ رکھے۔ صبح سے رات تک کسی سے کلام نہ کرے۔ اسلام نے اس کو منسوخ کر کے یہ لازم کردیا کہ صرف برے کلام، گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ عام گفتگو ترک کرنا اسلام میں کوئی عبادت نہیں رہی اس لئے اس کی نذر ماننا بھی جائز نہیں۔ (معارف القرآن)"

{فَاَجَآءَہَا الۡمَخَاضُ اِلٰی جِذۡعِ النَّخۡلَۃِ ۚ قَالَتۡ یٰلَیۡتَنِیۡ مِتُّ قَبۡلَ ہٰذَا وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا ﴿۲۳﴾} 

[فَاَجَآءَہَا : پھر لایا ان کو] [الْمَخَاضُ: دردِ زِہ] [اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِ: کھجور کے تنے کی طرف] [قَالَتْ: انھوں نے کہا] [يٰلَيْتَنِيْ: اے کاش میں] [مِتُّ: مر جاتی] [قَبْلَ ھٰذَا: اس سے پہلے] [وَكُنْتُ: اور میں ہوتی] [نَسْيًا مَّنۡسِیًّا : ایک بھولی بسری چیز]

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں