{فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا نَسِیَا حُوۡتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ سَرَبًا ﴿۶۱﴾}
[فَلَمَّا: پھر جب] [بَلَغَا: وہ دونوں پہنچے] [مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا: ان دونوں (سمندروں) کے درمیان ملنے کی جگہ] [نَسِيَا: تو وہ دونوں بھول گئے] [حُوْتَهُمَا: اپنی مچھلی کو] [فَاتَّخَذَ: تو اس نے بنایا] [سَبِيْلَهٗ: اپنا راستہ] [فِي الْبَحْرِ: سمندر میں] [سَرَبًا: نشیب میں گھستے ہوئے]
(آیت۔61)۔ مَجْمَعَ مضاف ہے بَیْنِھِمَا کا اور ظرف ہونے کی وجہ سے حالت نصب میں ہے۔ سَرَبًا حال ہے۔"
{فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا ﴿۶۲﴾}
[فَلَمَّا : پھر جب] [جَاوَزَا: وہ دونوں آگے بڑھے] [قَالَ: تو انھوں ؑ نے کہا] [لِفَتٰىهُ: اپنے نوجوان سے] [اٰتِنَا: تو دے ہم کو] [غَدَآءَنَا : ہمارے ناشتہ] [لَقَدْ لَقِيْنَا: بیشک ہم ملے ہیں] [مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا: اپنے اس سفر میں] [نَصَبًا: مشقت سے]
(آیت۔62)۔ فَتًی مبنی کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ یعنی رفع، نصب، جر، تینوں حالتوں میں یہ فَتًی ہی رہتا ہے۔ جب اس پر لام تعریف داخل ہو یا مضاف ہو تو تینوں حالتوں میں یہ اَلْفَتٰی یا فَتٰی آتا ہے۔ اس لئے یہاں لِفَتٰہُ میں حرف جز لِ کا عمل ظاہر نہیں ہوا۔ نَصَبًا مفعول ہے یَقِیْنَا کا۔"
{قَالَ اَرَءَیۡتَ اِذۡ اَوَیۡنَاۤ اِلَی الصَّخۡرَۃِ فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ اَنۡ اَذۡکُرَہٗ ۚ وَ اتَّخَذَ سَبِیۡلَہٗ فِی الۡبَحۡرِ ٭ۖ عَجَبًا ﴿۶۳﴾}
[قَالَ: اس (نوجوان) نے کہا] [اَ: کیا] [رَءَيْتَ: آپؑ نے دیکھا] [اِذْ: جب] [اَوَيْنَآ: ہم ٹھہرے] [اِلَى الصَّخْرَةِ: اس چٹان پر] [فَاِنِّیۡ : تو بیشک میں] [نَسِيْتُ: بھول گیا] [الْحُوْتَ: مچھلی کو] [وَمَآ اَنۡسٰنِیۡہُ : اور نہیں بھلایا مجھ کو ] [اِلَّا: مگر] [الشَّيْطٰنُ: شیطان نے] [اَنۡ: کہ] [اَذْكُرَهٗ: میں ذکر کروں اس کا] [وَاتَّخَذَ: اور اس (مچھلی) نے بنایا] [سَبِيْلَهٗ: اپنا راستہ] [فِي الْبَحْرِ: سمندر میں] [عَجَبًا : عجیب ہوتے ہوئے]
ص خ ر: ثلاثی مجرد سے فعل استعمال نہیں ہوتا۔
صَخْرَۃٌج صَخْرٌ۔ چٹان۔ زیر مطالعہ آیت۔63۔{ اَلَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ }(جنہوں نے تراشیں چٹانیں وادی میں) 89:29۔"