اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{اَوۡ یُصۡبِحَ مَآؤُہَا غَوۡرًا فَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ لَہٗ طَلَبًا ﴿۴۱﴾} 

[اَوْ: یا] [يُصْبِحَ: ہوجائے] [مَآؤُہَا : اس کا پانی] [غَوْرًا: جذب (زمین مین) [فَلَنْ تَسْتَطِيْعَ: پھر تجھے ہرگز استطاعت نہ ہوگی] [لَهٗ: اس کو] [طَلَبًا: (واپس) بلانے کی]"

{وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا وَ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُشۡرِکۡ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا ﴿۴۲﴾} 

[وَاُحِيْطَ: اور گھیر (یعنی سمیٹ) لیا گیا] [بِثَمَرِهٖ: اس کے پھل کو] [فَاَصْبَحَ: نتیجۃً وہ ہو گیا] [یُقَلِّبُ : الٹتا پلٹتا ہوا] [كَفَّيْهِ: اپنی دونوں ہتھیلیوں کو (یعنی ہاتھ ملتا رہ گیا)] [عَلٰي مَآ: اس پر جو] [اَنۡفَقَ : اس نے خرچ کیا] [فِيْهَا: اس (باغ) میں] [وَ: اس حال میں کہ] [ھِيَ: وہ (باغ)] [خَاوِيَةٌ: اوندھا تھا] [عَلٰي عُرُوْشِهَا: اپنی چھتوں پر] [وَيَـقُوْلُ: اور وہ کہتا تھا] [يٰلَيْتَنِيْ: اے کاش میں] [لَمْ اُشْرِكْ: میں شریک نہ کرتا] [بِرَبِّیۡۤ : اپنے رب کے ساتھ] [اَحَدًا: کسی ایک کو]

 نوٹ۔1: زیر مطالعہ آیات 32 سے 44 تک میں جو مثال دی گئی ہے اور اس میں جو دو اشخاص کے حالات اور مکالمہ دیا گیا ہے، اس میں ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہاں کہیں بھی کسی دیوی یا دیوتا کا ذکر نہیں ہے، پھر وہ کیا بات ہے جس کو آیت۔37 میں باغ والے کا کفر قرار دیا گیا اور آیت۔38 میں جس سے اعلان برأت کرتے ہو باغ والے کے ساتھی نے کہا کہ میں اپنے رب کے ساتھ کوئی شرک نہیں کرتا۔ اور پھر آیت 42 میں خود باغ والے نے جس کے لئے اپنا کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا کہ کاش میں اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کرتا۔ اب نوٹ کرلیں کہ وہ بات آیت۔35۔36 میں دی ہوئی ہے۔ یہ مادہ پرستانہ نکتۂ نظر ہے جس کو یہاں کفر اور شرک قرار دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم مادہ پرستی کے فلسفہ کو اچھی طرح سمجھ لیں۔

 عام خیال یہ ہے کہ مادہ پرستی کا مرض نیوٹن کی فزکس کی پیداوار ہے۔ لیکن ان آیات کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرض بہت پرانا ہے۔ نیوٹن نے پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کیا ہے۔ مادہ پرستانہ فلسفہ یہ ہے کہ مادہ (Matter) کا وجود قدیم ہے یعنی وہ ہمیشہ سے ہے اور مادہ کی خصوصیات (Properties of Matter) اس کی ذاتی ہیں اور لافانی ہیں۔ یہ سوچ قیامت کے نظریہ سے براہ راست متصادم ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس سوچ کا حامل شخص اگر اللہ کے وجود کو تسلیم کرتا ہے تب بھی قیامت پر اس کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے۔ یہ کفر ہے، اس کا دوسرا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ایسے شخص کا تکیہ اور بھروسہ یعنی توکل مادے اور اس کی خصوصیات پر ہو جاتا ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ اس کے ذہن سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ اسی مادہ پرستی کے فلسفہ کو یہاں شرک بھی کہا گیا ہے۔ قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ اس کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کا وجود قدیم ہے۔ اللہ کی صفات اس کی ذاتی ہیں، کسی کی عطا کردہ نہیں ہیں۔ اس کی صفات لامعدود (Infinite) ہیں اور لافانی ہیں۔ اللہ کے سوا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے، جہاں بھی ہے اور جس شکل میں بھی ہے۔ اس کا وجود حادث ہے یعنی وہ چیز پہلے نہیں تھی، اللہ نے اسے وجود بخشا تو وہ وجود میں آئی۔ ہر چیز کا وجود الٰہی اجل مسمی ہے یعنی فانی ہے۔ ہر چیز کی صفات اس کی ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ کی عطا کردہ ہیں، لامحدود نہیں ہیں بلکہ ایک اندازے اور تناسب سے عطا کی گئی ہیں اور ہر چیز کے وجود کی طرح اس کی صفات بھی فانی ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں