{اُنۡظُرۡ کَیۡفَ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ وَ لَلۡاٰخِرَۃُ اَکۡبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَکۡبَرُ تَفۡضِیۡلًا ﴿۲۱﴾}
[اُنۡظُرۡ : آپؐ دیکھیں] [كَيْفَ: کیسے] [فَضَّلْنَا: ہم نے فضیلت دی] [بَعْضَهُمْ: ان کے بعض کو] [عَلٰي بَعْضٍ: بعض پر] [وَلَلْاٰخِرَةُ: اور یقینا آخرت] [اَكْبَرُ: سب سے بڑی ہے] [دَرَجٰتٍ: درجوں کے لحاظ سے] [وَّاَكْبَرُ: اور سب سے بڑی ہے] [تَفْضِيْلًا: فضیلت دینے کے لحاظ سے]
نوٹ۔3: آیت نمبر۔21 کو اگر آیت۔19 کے تناظر میں پڑھا جائے تو بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آخرت کے لئے کوشش کرنا مطلوب بھی ہے اور محمود بھی۔ جنت میں داخلہ کا پروانہ مل جانا ہی ایک عظیم کامیابی ہے۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کے آگے پھر جنت کی سوسائٹی میں Status یعنی درجات کا مسئلہ بھی ہے۔ اس کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہم سے کہا گیا کہ اس دنیا میں Status کے جو فرق ہیں ان پر غور کرو اور اس حوالہ سے یہ حقیقت ذہن نشین کرلو کہ دنیا میں Status کا جو فرق ہے، وہ تو محض ایک نمونہ ہے۔ اس کا تھان تو آخرت میں کھلے گا۔ جنت کی سوسائٹی میں درجات کا فرق تعداد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے اور ایک درجے کی دوسرے درجے پر فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے۔
ہمیں ایمانداری سے سوچنا چاہئے کہ ہم اس دنیا کے عارضی اور فانی Status کے لئے کتنی جان مارتے ہیں اور جنت کے Status کی ہمیں کتنی فکر ہے۔ جو لوگ آخرت کے لئے کوشاں ہیں ان کسی بھی اکثریت کے ذہن میں جنت کے Status کا مسئلہ نہیں ہے پھر اس کی فکر کرنے کا کیا سوال ہے۔ ہم لوگ مرحومین کے لئے بلندیٔ درجات کی دعا تو مانگتے ہیں لیکن جنت میں اپنے درجات کی اپنی زندگی میں فکر نہیں کرتے۔ اِلاّ ماشاء اللہ۔"
{لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقۡعُدَ مَذۡمُوۡمًا مَّخۡذُوۡلًا ﴿٪۲۲﴾}
[لَا تَجْعَلْ: تو مت بنا] [مَعَ اللّٰهِ: اللہ کے ساتھ] [اِلٰـهًا اٰخَرَ: کوئی دوسرا الٰہ] [فَتَقْعُدَ: ورنہ تو بیٹھ رہے گا] [مَذْمُوْمًا: مذمت کیا ہوا] [مَّخْذُوْلًا: بےبس کیا ہوا]"
{وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾}
[وَقَضٰى: اور فیصلہ کیا] [رَبُّكَ: تیرے رب نے] [اَلَّا تَعْبُدُوْٓا: کہ تم لوگ بندگی مت کرو] [اِلَّآ: مگر] [اِيَّاهُ: اس کی ہی] [وَبِالْوَالِدَيْنِ: اور والدین کے ساتھ] [اِحۡسَانًا : حسن سلوک کرنے کا] [اِمَّا : جب کبھی بھی] [يَبْلُغَنَّ: پہنچ جائیں] [عِنْدَكَ: تیرے پاس] [الْكِبَرَ: بڑھاپے کو] [اَحَدُهُمَآ: دونوں کا ایک] [اَوْ: یا] [كِلٰـهُمَا: دونوں کے دونوں] [فَلَا تَـقُلْ: تو تو مت کہہ] [لَّهُمَآ: ان دونوں سے] [اُفٍّ: اف (بھی)] [وَّلَا تَنْهَرْ: اور تو مت جھڑک] [هُمَا: ان دونوں کو] [وَقُلْ: اور تو کہہ] [لَّهُمَا: ان دونوں سے] [قَوْلًا كَرِيْمًا: شریفانہ بات]
ء ف ف [اَفًّا: (ن۔ ض) ] تکلیف یا بےقراری میں اُف اُف کہنا۔
اُفٍّ اسم فعل ہے بمعنی میں ناپسند کرتا ہوں۔ بیزار ہوتا ہوں، زیر مطالعہ آیت۔23"