اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

نوٹ۔2: حجر قوم ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہ راہ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں مگر نبی ﷺ کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ یہاں سرخ رنگ کے پہاڑوں میں قوم ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انھوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ ان کے نقش ونگار اس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں ۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی ہوئی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ (تفہیم القرآن)"

{وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ اٰیٰتِنَا فَکَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾} 

[وَاٰتَيْنٰهُمْ: اور ہم نے دی تھیں ان کو] [ اٰيٰتِنَا: اپنی نشانیاں] [ فَكَانوْا: تو وہ لوگ تھے] [ عَنْهَا: ان سے] [ مُعْرِضِيْنَ: اعراض کرنے والے]"

{وَ کَانُوۡا یَنۡحِتُوۡنَ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا اٰمِنِیۡنَ ﴿۸۲﴾} 

[وَكَانوْا يَنْحِتُوْنَ: اور وہ تراشتے تھے] [ مِنَ الْجبالِ: پہاڑوں سے] [ بُيُوْتًا: کچھ گھر] [ اٰمِنِيْنَ: امن میں ہونے والے ہوتے ہوئے]"

{فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۳﴾} 

[فَاَخَذَتْهُمُ: پھر پکڑا ان کو] [ الصَّيْحَةُ: چنگھاڑنے] [ مُصْبِحِيْنَ: صبح کرنے والے ہوتے ہوئے]"

{فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿ؕ۸۴﴾} 

[فَمَآ اَغْنٰى: پھر کام نہ آیا] [ عَنْهُمْ: ان کے ] [ مَّا : وہ جو] [ كَانوْا يَكْسِبُوْنَ: وہ لوگ کماتے تھے]"

{وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ فَاصۡفَحِ الصَّفۡحَ الۡجَمِیۡلَ ﴿۸۵﴾} 

[وَمَا خَلَقْنَا: اور نہیں پیدا کیا ہم نے] [ السَّمٰوٰتِ: آسمانوں کو] [ وَالْاَرْضَ: اور زمین کو] [ وَمَا: اور اس کو جو] [ بَيْنَهُمَآ: ان دونوں کے درمیان ہے] [ اِلَّا: مگر] [ بِالْحَقِّ ۭ : حق کے ساتھ] [وَاِنَّ : اور یقینا] [ السَّاعَةَ: وہ گھڑی (یعنی قیامت)] [ لَاٰتِيَةٌ: ضرور آنے والی ہے] [ فَاصْفَحِ: تو آپؐ نظر انداز کریں] [ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ: خوبصورت نظر انداز کرنا]"

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں