{یٰصَاحِبَیِ السِّجۡنِ اَمَّاۤ اَحَدُ کُمَا فَیَسۡقِیۡ رَبَّہٗ خَمۡرًا ۚ وَ اَمَّا الۡاٰخَرُ فَیُصۡلَبُ فَتَاۡکُلُ الطَّیۡرُ مِنۡ رَّاۡسِہٖ ؕ قُضِیَ الۡاَمۡرُ الَّذِیۡ فِیۡہِ تَسۡتَفۡتِیٰنِ ﴿ؕ۴۱﴾}
[يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ: اے جیل کے دونوں ساتھیو] [ اَمَآ: وہ جو ہے] [ اَحَدُكُمَا: تم دونوں کا یک] [ فَيَسْقِيْ : تو وہ پلائے گا] [رَبَّهٗ : اپنے آقا کو] [خَمْرًا: شراب] [ وَاَمَّا : اور وہ جو ہے] [ الْاٰخَرُ: دوسرا] [ فَيُصْلَبُ : تو وہ پھانسی دیا جائے گا] [فَتَاْكُلُ : پھر کھائیں گے] [الطَّيْرُ: پرندے] [ مِنْ رَّاْسِهٖ : اس کے سر میں سے] [ قُضِيَ: فیصلہ کیا گیا] [ الْاَمْرُ: کام کا] [ الَّذِي: وہ ] [ فِيْهِ : جس کے بارے میں] [تَسْتَفْتِيٰنِ: تم دونوں پوچھتے ہو]"
{وَ قَالَ لِلَّذِیۡ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنۡہُمَا اذۡکُرۡنِیۡ عِنۡدَ رَبِّکَ ۫ فَاَنۡسٰہُ الشَّیۡطٰنُ ذِکۡرَ رَبِّہٖ فَلَبِثَ فِی السِّجۡنِ بِضۡعَ سِنِیۡنَ ﴿ؕ٪۴۲﴾}
[وَقَالَ: اور انھوں ؑ نے کہا] [ لِلَّذِيْ: اس سے جس کے لئے] [ ظَنَّ : انھوںؑ نے گمان کیا] [اَنَّہٗ: کہ وہ] [ نَاجٍ: نجات پانے والا ہے] [ مِّنْهُمَا: دونوں میں سے] [ اذْكُرْنِيْ: تم ذکر کرنا میرا [ عِنْدَ رَبِكَ : اپنے آقا کے پاس] فَانسٰىهُ : تو بھلا دیا اس کو] [الشَّيْطٰنُ: شیطان نے] [ ذِكْرَ رَبِّہٖ : اپنے آقا سے ذکر کرنے کو] [ فَلَبِثَ: تو وہؑ رہے] [ فِي السِّجْنِ: جیل میں [ بِضْعَ: چند ] [ سِنِيْنَ: سالوں (تک)]
نوٹ۔1: خواب کی تعبیر بتانے سے پہلے یات 37 تا 409 میں جو حضرت یوسف ؑ کی تقریر دی ہے وہ اس پورے قصے کی جان ہے اور خود قرآن میں توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے۔ بائبل اور لمود میں کہیں اس کا اشارہ تک نہیں ہے۔ وہ حضرت یوسفؑ کو محض ایک دانشمند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں، مگر قرآن نہ صرف ان کی سیرت کے ان پہلوئوں کو زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہے، بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت کا کام انھوں نے قید میں ہی شروع کردیا تھا۔ پھر حصرت یوسف ؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لئے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمت تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنے خواب کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپؑ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمھیں ضرور بتائوں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ یہ علم مجھے کہاں سے ملاہے۔ یہ ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے دیا ہے۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپؑ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کسی کے دل میں تبلیغ حق کی دھن سمائی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی مرقع شناسی میں اور ایک ناداں مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع محل کا لحاظ کئے بغیر لوگوں کے کانوں میں اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑ پن اور جھگڑالو پن سے انھیں الٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)"