{وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ۛؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾ۚ}
[وَمِمَّنْ [ اور ان میں سے ] حَوْلَكُمْ [ تمہارے اردگرد ] مِّنَ الْاَعْرَابِ [ دیہاتیوں میں سے ] مُنٰفِقُوْنَ [ (وہ ) منافق ہیں]وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ [ اور مدینہ والوں میں سے ] مَرَدُوْا [ جو اڑے رہے ] عَلَي النِّفَاقِ [ نفاق پر ] لَا تَعْلَمُھُمْ [ آپ نہیں جانتے ان کو ] نَحْنُ [ ہم ] نَعْلَمُھُمْ [ جانتے ہیں ان کو ] سَنُعَذِّبُھُمْ [ ہم عذاب دیں گے ان کو ] مَّرَّتَيْنِ [ دو مرتبہ] ثُمَّ [ پھر ] يُرَدُّوْنَ [ وہ لوٹائے جائیں گے ] اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ [ ایک عظیم عذاب کی طرف ]
نوٹ ۔1: آیت ۔ 101 میں ہے کہ ایسے منافق جو نفاق میں بہت آگے جا چکے ہیں ۔ انھیں عذاب عظیم یعنی دوزخ کے عذاب سے پہلے دومرتبہ عذاب دیا جائے گا ۔ اس میں ایک دنیا کی زندگی کا عذاب ہے اور دوسرا قبر کا عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ لیکن ایک صورت ایسی ہے جس میں تقریبا ہر منافق گرفتار ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ دنیا کے جن مفادات کے تحفظ کی خاطر ہو ’’ خوش رہے باغبان ، راضی رہے صیاد بھی ‘‘ کی روش اختیار کرتا ہے ، انھیں وہ محفوظ پھر بھی نہیں سمجھتا اور ہر وقت اسے کسی نہ کسی نقصان کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔ (اس کی مزید وضاحت کے لیے آیت ۔ 9:55 کا نوٹ ۔ 1 ، پھر سے پڑھ لیں ) یہ سوہان روح مستقل اس کی جان کو لاگو رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہت ، غصہ ، اعصابی تناؤ ، بےخوابی وغیرہ میں وقفہ وقفہ سے مبتلا ہوتا رہتا ہے ، کچھ وقت گزرنے کے بعد یہی چیزیں اسے مختلف بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہیں ، جن کی فہرست کافی طویل ہے ۔ اس طرح اس کی زندگی ایک مسلسل عذاب ہی ہوتی ہے ۔
اس دنیوی عذاب سے نجات کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کر لیے کہ کسی معاملہ میں کوشش کرنے یا نہ کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، لیکن کسی کوشش کے نتیجہ پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ہر کوشش کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضہ قدرت میں رکھا ہے۔ اپنے علم اور حکمت کی بنیاد پر وہ کسی کوشش کا وہ نتیجہ عطا کرتا ہے۔ جو Over All تناظر میں بندے کے حق میں مفید ہوتا ہے ۔ یہ ہماری اپنی کوتاہ بینی اور کم فہمی ہے کہ کسی نتیجہ کو ہم برا سمجھتے ہیں ۔ اس حقیقت پر جب دل ٹھک جائے تو پھر کسی کوشش کا جو بھی نتیجہ نکلے ، کامیابی ہو یا ناکامی ، فائدہ ہو یا نقصان اور ہرحال میں راضی برضا رہنے کا خود کو خوگر بنالے ، تو مذکورہ دنیوی عذاب سے نجات پاجائے گا ، اس کے علاوہ اس سے نجات کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔"
{وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۰۲﴾}
[وَاٰخَرُوْنَ [ اور کچھ دوسرے ہیں ] اعْتَرَفُوْا [ جنھوں نے اعتراف کیا ] بِذُنُوْبِهِمْ [ اپنے گناہوں کا ] خَلَطُوْا [ انھوں نے گڈمڈ کیا ] عَمَلًا صَالِحًا [ نیک عمل کو ] وَّاٰخَرَ سَیِّئًا [ اور دوسرے برے کو ] عَسَى [ قریب ہے] اللّٰهُ [ اللہ ] اَنْ [ کہ ] يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ [ وہ توبہ قبول کرے ان کی ] اِنَّ اللّٰهَ [یقینا اللہ ] غَفُوْرٌ [ بےانتہابخشنے والا ہے ] رَّحِيْمٌ [ ہمیشہ رحم کرنے والا ہے ]"