اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ ہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ ﴿۲۱﴾} 

[ وَلَا تَكُوْنُوْا: اور تم لوگ مت ہو ] [ كَالَّذِيْنَ: ان کی مانند جنھوں نے ] [ قَالُوْا: کہا ] [ سَمِعْنَا: ہم نے سنا ] [ وَ: حالانکہ ] [ هُمْ: وہ لوگ ] [ لَا يَسْمَعُوْنَ: نہیں سنتے]"

{اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الۡبُکۡمُ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۲﴾} 

اِنَّ: بیشک ] [ شَرَّ الدَّوَآبِّ : زمین پرچلنے والوں کے بد ترین ] [ عِنْدَ اللّٰهِ: اللہ کے ہاں ] [ الصُّمُّ: بہرے ہیں ] [ الْبُكْمُ: گونگے ہیں ] [ الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو ] [ لَا يَعْقِلُوْنَ: عقل نہیں کرتے ]

(آیت ۔ 22) شرالدواب مبتدا ہے۔ الصم اور البکم اس کی معرفہ خبریں ہیں جبکہ الذین لا یعقلون خبروں کا بدل ہے ۔"

{وَ لَوۡ عَلِمَ اللّٰہُ فِیۡہِمۡ خَیۡرًا لَّاَسۡمَعَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَسۡمَعَہُمۡ لَتَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۲۳﴾} 

وَلَوْ: اور اگر ] [ عَلِمَ: جانتا ] [ اللّٰهُ: اللہ ] [ فِيْهِمْ: ان میں] [ خَيْرًا: کوئی بھلائی ] [ لَّاَسْمَعَهُمْ ۭ : تو وہ ضرور سناتا ان کو ] [ وَلَوْ: اور اگر ] [ اَسْمَعَهُمْ: وہ سناتا ان کو ] [ لَتَوَلَّوْا: تو وہ ضرور روگردانی کرتے ] [ وَّهُمْ: اور وہ ہیں (ہی ) ] [ مُّعْرِضُوْنَ: اعراض کرنے والے ]"

{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۲۴﴾} 

[ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ: اے لوگو! جو ] [ اٰمَنُوا: ایمان لائے ] [ اسْتَجِيْبُوْا: تم لوگ حکم مانو ] [ لِلّٰهِ: اللہ کا ] [ وَلِلرَّسُوْلِ: اور ان رسول کا ] [ اِذَا: جب بھی ] [ دَعَاكُمْ: وہ بلائیں تم کو ] [ لِمَا: اس کے لیے جو ] [ يُحْيِيْكُمْ: زندگی دیتی ہے تم کو ] [ وَاعْلَمُوْٓا: اور جان لو ] [ اَنَّ: کہ ] [ اللّٰهَ: اللہ ] [ يَحُوْلُ: حائل کردیتا ہے ] [ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ: آدمی اور اس کے دل کے درمیان ] [ وَاَنَّهٗٓ: اور حقیقت تو یہ ہے کہ ] [ اِلَيْهِ: اس کی طرف ہی ] [ تُحْشَرُوْنَ: تم لوگ جمع کیے جاؤگے ]

(آیت ۔ 24) وانہ میں ضمیر الشان ہے۔

نوٹ ۔1: آیت ۔ 24 میں ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل کردیتا ہے ۔ کیا حائل کردیتا ہے ؟ یہ بات محذوف ہے۔ اس وجہ سے آیت کے اس جملے کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور اس کے ایک سے زیادہ مفاہیم یبان کیے گئے ہیں ۔ البتہ اسی آیت میں مذکورہ جملے سے پہلے یہ ہے کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ تمہیں حیات بخش چیز کی طرف بلائیں تو لبیک کہو۔ اس کے پیش نظر مذکورہ جملے کا زیادہ قابل ترجیح مفہوم یہ بنتا ہے کہ جب کسی نیک کام کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو ، دیر نہ کرو اور اس فرصت کو غنیمت سمجھو، بعض اوقات آدمی کے ارادے کے درمیان قضائے الہی حائل ہوجاتی ہے اور وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ موت آجائے ، کوئی بیماری پیش آجائے یا کوئی واقعہ ایسی مصروفیت پیدا کردے کہ اس کام کی فرصت نہ مل سکے ۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ فرصت وقت کو غنیمت سمجھے اور آج کا کام کل پر نہ ٹالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہوتا ہے ۔ (معارف القرآن سے ماخوذ )

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں