سورة الاعراف
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
{الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾}
{کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲﴾}
[كِتٰبٌ [ (یہ ) ایک ایسی کتاب ہے جو ]اُنْزِلَ [ اتاری گئی ]اِلَيْكَ [ آپ کی طرف ]فَلَا يَكُنْ [ پس چاہئے کہ نہ ہو]فِيْ صَدْرِكَ [ آپ کے سینے میں ]حَرَجٌ [ کوئی تنگی ]مِّنْهُ [ اس سے] لِتُنْذِرَ [ تاکہ آپ خبردار کریں ]بِهٖ [ اس سے ]وَذِكْرٰي [ اور نصیحت ہوتے ہوئے ]لِلْمُؤْمِنِيْنَ (2) [ ایمان لانے والوں کے لیے ]
ع ی ش: (ض) معاشا ۔ زندہ رہنا ۔ زندگی گزارنا ۔ {وَّ جَعَلۡنَا النَّہَارَ مَعَاشًا ﴿۪۱۱﴾} [ اور ہم نے بنایا دن کو زندہ رہنے کے لئے ] 78:11۔ اور عیشۃ ،{فَہُوَ فِیۡ عِیۡشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ ﴿ۙ۲۱﴾} [ تو وہ من بھاتی زندگی گزارنے میں ہے ] 69:21۔ معیشۃ (ج) معایش ۔ زندگی گزارنے کا زذریعہ ۔ سامان زندگی ۔{نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا} [ ہم نے تقسیم کیا ان کے مابین ان کی زندگی سانان دنیوی زندگی میں ] 43:32
ق ی ل : (ض) قیلولۃ ۔ دوپہر کو آرام کرنا خواہ نیند نہ آئے۔ قائل ، اسم الفاعل ہے ۔ دوپہر کو آرام کرنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 4۔ مقیل ۔ اسم الظرف ہے ۔ آرام کرنے کی جگہ ۔{اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ یَوۡمَئِذٍ خَیۡرٌ مُّسۡتَقَرًّا وَّ اَحۡسَنُ مَقِیۡلًا ﴿۲۴﴾} [ اور جنت والے اس دن سب سے بہتر ہوں کے بلحاظ ٹھکانے کے اور سب سے اچھے ہوں گے بلحاظ آرامگاہ کے ] 25:24۔
ترکیب: (آیت 2) کتب ، کا مبتدا ھذا محذوف ہے اور یہ نکرہ مخصوصہ ہے ۔ انزل الیک اس کی خصوصیت ہے ۔ فلا یکن کان تامہ ہے اور حرج اس کا فاعل ہے۔ منہ کی ضمیر کتب کے لیے ہے۔ ذکری حال ہے ۔"
{اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۳﴾}
[اِتَّبِعُوْا [ تم لوگ پیروی کرو]مَآ [ اس کی جو ]اُنْزِلَ [ اتارا گیا ]اِلَيْكُمْ [ تمہاری طرف ]مِّنْ رَّبِّكُمْ [ تمہارے رب کی طرف سے ] وَلَا تَتَّبِعُوْا [ اور پیروی مت کرو] مِنْ دُوْنِهٖٓ [ اس کے سوا ]اَوۡلِیَآءَ [ کچھ کارسازوں کی]قَلِيْلًا مَّا [ بہت تھوڑی ہے جو ] تتَذَكَّرُوْنَ [ تم لوگ نصیحت پکڑتے ہو]
(آیت ۔3) وَلَا تَتَّبِعُوْا کا مفعول اولیاء ہے تذکرون کی تمیز قلیلا ہے اور اس کے آگے ما اس کو غیر معین کرنے کے لیے ہے ۔ (دیکھیں ۔ آیت نمبر ۔2:26، نوٹ ۔1) یعنی بہت ہی کم ۔"
{وَ کَمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا فَجَآءَہَا بَاۡسُنَا بَیَاتًا اَوۡ ہُمۡ قَآئِلُوۡنَ ﴿۴﴾}
[وَكَمْ مِّنْ قَرْيَةٍ [ اور کتنی ہی بستیاں ہیں ]اَهْلَكْنٰهَا [ ہم نے ہلاک کیا جن کو ]فَجَآءَہَا [ پھر آئی ان کے پاس ] بَاْسُنَا [ ہماری سختی ]بَيَاتًا [ رات ہوتے ہوئے ]اَوْ هُمْ [ یا اس حال میں کہ وہ لوگ ]قَآئِلُوۡنَ [ دوپہر کو آرام کرنے والے تھے ]
(آیت ۔ 4۔5) بیاتا حال ہے اور اس کے آگے ھم قائلون پورا جملہ بھی حال ہے ۔ فجاء ھا میں ھا کی ضمیر بستیوں کے لیے ہے جبکہ فجاء ہم میں ھم کی ضمیر بستی والوں کے لیے ہے ۔"