{بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾}
[بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ [ (وہ) زمین اور آسمانوں کا ایجاد کرنے والا ہے ] اَنّٰى [ کہاں سے ] يَكُوْنُ [ ہوگی ] لَهٗ [ اس کے لئے ] وَلَدٌ [ کوئی اولاد ] وَّ [ اس حال میں کہ ] لَمْ تَكُنْ [ تھی ہی نہیں ] لَّهٗ [ اس کے لئے ] صَاحِبَةٌ [ کوئی ساتھی (یعنی بیوی ) ] وَخَلَقَ [ اور اس نے پیدا کیا ] كُلَّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو ] وَهُوَ [ اور وہ ] بِكُلِّ شَيْءٍ [ ہر چیز کو ] عَلِيْمٌ [ جاننے والا ہے ]
ل ط ف: (ن) لطفا ۔ لطیف ہونا ۔ یہ ثقیل اور کثیف کی ضد ہے۔ یعنی ہر قسم کے ثقل اور کثافت سے مبرا ہونا ۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ متعدد معانی میں آتا ہے ۔ (1) نرم اور مہربان ہونا ۔ (2) ایسی تدبیر کرنا کہ کسی کو اس کا احساس نہ ہو (3) باریک بین ہونا ۔ لطیف ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ، اسم الفاعل کے معنی میں ۔ ہمیشہ اور ہر حال میں (1) نرمی اور مہربانی کرنے والا (2) غیر محسوس تدبیر کرنے والا (3) باریک بین ۔{اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ}[ اللہ نرمی کرنے والا ہے اپنے بندوں سے ] 42:19۔{اِنَّ رَبِّیۡ لَطِیۡفٌ لِّمَا یَشَآءُ ؕ} [ بےشک میرا رب غیر محسوس تدبیر کرنے والا ہے اس کے لئے جو وہ چاہتا ہے ] 12:100 اور زیرمطالعہ آیت ۔103۔ (تفعل ) بتکلف نرمی اختیار کرنا ۔{فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔتَلَطَّفۡ} [ پھر چاہیے کہ وہ لائے تمہارے لئے کچھ کھانا اس میں سے اور چاہیے کہ وہ نرمی اختیار کرے ] 18:19۔
ترکیب: (2:101) یکون کان تامہ ہے اور ولد اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے ۔ (6:102) ذلکم اللہ مرکب اشاری اور مبتدا ہے ۔ ربکم اس کی خبر ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ذلکم کو مبتدا اور اللہ کو خبر مانیں ، تو ربکم بدل ہو گا اللہ کا ۔ ترجمے میں ہم پہلی صورت کو ترجیح دیں گے ۔ (6:104) لنفسہ قائم مقام خبر ہے ۔ اس کا مبتدا فبصیرتہ محذوف ہے ۔ اسی طرح علیھا کا مبتدا فعمیہ محذوف ہے ۔ (6:105) لیقولوا پر لام عاقبت ہے جبکہ لنبینہ پر لام کی ہے ۔
نوٹ 1: انسان کو اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ اس مسئلہ میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے زیارت کی درخواست کی تو جواب ملا کہ آپ ہر گز مجھے نہیں دیکھ سکتے (7:143) البتہ آخرت میں مومنین کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ یہ بات متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے اور قرآن مجید میں بھی ہے کہ ’’ قیامت کے روز بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔‘‘ (75:22۔23) البتہ کفار ومنکرین اس روز بھی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ کی زیارت سے محروم رہیں گے (83:15) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جنت کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہوگی کہ وہاں جنتیوں کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی ۔ (مسلم) اور اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائیں گے ، ان کو روزانہ صبح وشام زیارت نصیب ہوگی ۔ (ترمذی ۔ مسند احمد )
آیت زیر مطالعہ لا تدرکہ الابصار کا مطلب یہ ہے کہ انسانی نگاہ اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ کیونکہ اس کی ذات غیر محدود اور انسانی نگاہ محدود ہے ۔ دنیا میں انسانی نگاہ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ رویت کو بھی برداشت کرسکے ۔ البتہ قیامت میں یہ قوت پیدا ہوجائے گی تو زیارت ہوسکے گی ۔ لیکن ذات حق کا احاطہ اس وقت بھی نہ ہوسکے گا ۔ (معارف القرآن)"