{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الۡقُرۡاٰنُ تُبۡدَ لَکُمۡ ؕ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾}
[يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ [ اے لوگو! جو ] اٰمَنُوْا [ ایمان لائے ]لَا تَسۡـَٔلُوۡا [ تم لوگ مت پوچھو ] عَنْ اَشۡیَآءَ [ ایسی چیزوں کے بارے میں ] اِنْ [ کہ اگر ] تُبْدَ [ وہ ظاہر کردی جائیں ] لَكُمْ [ تمہارے لیے] تَسُؤْكُمْ [ تو وہ بری لگے تم کو ] وَاِنْ [ اور اگر ] تَسۡـَٔلُوۡا [ تم لوگ پوچھو گے ]عَنْهَا [ ان کے بارے میں [ حِيْنَ اس وقت کہ ] يُنَزَّلُ [ اتارا جاتا ہے ] الْقُرْاٰنُ [ قرآن ] تُبْدَ [ تو وہ ظاہر کردی جائیں گی ]لَكُمْ ۭ [ تمہارے لیے ] عَفَا [ درگزر کیا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] عَنْهَا [ اس سے ] وَاللّٰهُ [ اور اللہ ] غَفُوْرٌ [ بےانتہا بخشنے والا ہے ] حَلِيْمٌ [ بردبار ہے ]
س ی ب :ـ(ض) سیبا ۔ پانی کا ادھر ادھر بہنا ۔ مویشی کا آزاد پھرنا ۔ سائبۃ ۔ اسم الفاعل ہے ۔ آزاد پھرنے والی ۔ اصطلاح ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جسے مقدس قرار دے کر آزاد چھوڑ دیا گیا ہو۔ آیت زیر مطالعہ ۔
ح م ی ۔ (ض) ۔ حمیا کسی چیز کو کسی سے روکنا ۔ بچانا ۔ حمایت کرنا ۔ حام ۔ اسم الفاعل ہے ۔ بچانے والا ۔ اصطلاحا ایسے اونٹ کو کہتے ہیں جسے مقدس قرار دے کرآزاد چھوڑ دیا گیا ہو ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ (س) ۔ حمیا ۔ کسی چیز کا بہت تیز گرم ہو جانا۔ حامیۃ ۔ اسم الفاعل ہے ۔ گرم ہونے والی ۔{تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾} [ وہ گریں گے ایک جلنے والی یعنی دہکتی ہوئی آگ میں ] ۔ 88:4۔ حمیۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ جذبات کی گرمی کا ابال ۔ جوش ۔ نخوت ۔{اِذۡ جَعَلَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡحَمِیَّۃَ } [ اور جب رکھا انھوں نے جنھوں نے کفر کیا ، اپنے دلوں میں نخوت ] ۔ 48:26۔ (افعال ) احماء ۔ کسی چیز کو خوب گرم کرنا ۔تپانا ۔ {یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ} [ جس دن تپایا جائے گا اس کو جہنم کی آگ میں ] ۔ 9:35۔
ترکیب : شیء کی جمع اشیاء غیر منصرف آتی ہے یہاں اشیاء حالت جر میں ہے اور نکرہ موصوفہ ہے ۔ آگے جملہ شرطیہ ان تبدلکم تسوکم اس کی صفت ہے ۔ تبد دراصل باب افعال کے مضارع مجہول میں مؤنث کا صیغہ تبدی ہے اور ان کی وجہ سے اس کی ’’ ی ‘‘ گری ہوئی ہے ، جبکہ تسؤ جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم آیا ہے ۔ سائبۃ وصیلۃ اور حام ، یہ سب من بحیرۃ کی من پر عطف ہونے کی وجہ سے مجرور ہوئے ہیں اور یہ من تبعیضیہ ہے ۔ لایضر کا فاعل من ہے ۔
نوٹ:1 نبی کریم ﷺ خود بھی لوگوں کو کثرت سوال سے اور خواہ مخواہ ہر بات کی کھوج لگانے سے منع فرماتے رہتے تھے۔ ایسی ہی ایک حدیث میں ہے ’’ اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں ، انھیں ضائع نہ کرو ، کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ، ان کے پاس نہ پھٹکو ۔ کچھ حدود مقرر کی ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو ، اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے، بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو ، لہذا ان کی کھوج نہ لگاؤ ‘‘ اب جو شخص مجمل کو مفصل اور غیر معین کو معین کرتا ہے ، وہ درحقیقت مسلمانوں کو بڑے خطرے میں ڈالتا ہے ۔ (تفیہم القرآن )