اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{وَ اِذَا جَآءُوۡکُمۡ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا وَ قَدۡ دَّخَلُوۡا بِالۡکُفۡرِ وَ ہُمۡ قَدۡ خَرَجُوۡا بِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا کَانُوۡا یَکۡتُمُوۡنَ ﴿۶۱﴾} 

[وَاِذَا:  اور جب بھی ][ جَآءُوۡکُمۡ : وہ آتے ہیں تمہارے پاس ][ قَالُوْٓا : تو کہتے ہیں ][ اٰمَنَّا: ہم ایمان لائے ][وَ : حالانکہ ][ قَدْ دَّخَلُوْا : وہ داخل ہوئے ہیں ][بِالْكُفْرِ :کفر کے ساتھ ] [وَهُمْ : اور وہ ] [قَدْ خَرَجُوْا : نکلے ہیں ][بِهٖ : اس کے ساتھ ][وَاللّٰهُ : اور اللہ ][ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے ][بِمَا : اس کو جو ][ كَانُوْا يَكْتُمُوْنَ : وہ لوگ چھپا یا کرتے ہیں ]"

{وَ تَرٰی کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۲﴾} 

[وَتَرٰى : اور آپ دیکھیں گے ][كَثِيْرًا : بہت سے لوگوں کو ][ مِّنْهُمْ : ان میں سے ][ يُسَارِعُوْنَ : کہ وہ لوگ باہم سبقت کرتے ہیں ][فِي الْاِثْمِ : گناہ میں ][وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی میں ][وَاَكْلِهِمُ [ اور اپنے کھانے میں ] [السُّحْتَ: ناپاک کمائی کو][ لَبِئْسَ: یقینا بہت برا ہے ][ مَا : وہ جو ][ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ :وہ لوگ کیا کرتے ہیں ]

ط ف ء (س) طفوء ۔ کسی چیز کی روشنی کا ختم ہوجانا ۔ آگ کا بجھ جانا ۔ (افعال ) اطفاء ۔ روشنی کو ختم کرنا ۔ آگ بجھانا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ق ص د(ض) قصدا ۔ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا ۔ اقصد ۔ فعل امر ہے ۔ تومیانہ روی اختیار کر۔ {وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ}  [اور تم میانہ روی اختیار اپنی چال میں ] ۔31:19۔ قصد ۔ کسی چیز کا اوسط ۔ درمیان ۔ {وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ }  [ اور اللہ پر ہے راستے کا اعتدال یعنی اسے واضح کرنا ] ۔16:9۔ قاصد ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ درمیان میں ہونے والا یعنی درمیانی ۔ متوسط ۔{لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ }  [ اگر ہوتا کوئی قریبی سامان سفر تو وہ لوگ ضرور پیروی کرتے آپ کی ] ۔ 9 :42۔ (افتعال) اقتصادا۔ اہتمام سے میانہ رو ہونا ۔ مقتصد ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اہتمام سے میانہ روی اختیار کرنے والا یعنی میانہ رو ۔ آیت زیر مطالعہ ۔

ترکیب : کثیرا صفت ہے ، اس کا موصوف رجالا محذوف ہے ۔ فی پر عطف ہونے کی وجہ سے اکلہم کا مضاف اکل مجرور ہوا اور اس مصدر نے فعل کا عمل کیا ہے ، السحت اس کا مفعول ہے ۔ اسی طرح قولہم کے مصدر قول کا مفعول الاثم ہے ۔ لولا کے بعد فعل مضارع ینھی آیا ہے ۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ہوگا ۔ (آیت نمبر ۔ 2 :64، نوٹ ۔1) الیھود عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے واحدمؤنث قالت بھی جائز ہے ۔ ید للہ مغلولۃ اگر قالت کا مفعول ہوتا تو پھر ید اللہ آتا ۔ ید کی رفع بتا رہی ہے کہ یہود جس طرح کہتے تھے ، ان کی بات کو ویسے ہی یعنی (TENSE DIRECT) میں نقل کیا گیا ہے ، عربی میں اعراب کی سہولت موجود ہونے کی وجہ سے مقولہ (TENSE DIRECT) کی پہچان کے لیے کوئی شناختی نشان لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، جیسے کہ انگریزی میں ضرورت ہوتی ہے ۔ یدہ میں ید دراصل یدان تھا ۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہوا ہے اور ہ کی ضمیر اس کا مضاف الیہ ہے ید مؤنث سماعی ہے اس لیے اس کی خبر میں مبسوطۃ کا تثنیہ مبسوطتن آیا ہے ۔ لیریدن کا مفعول کثیرا ہے اور یہاں بھی رجالا محذوف ہے، جبکہ اس کا فاعل ماانزل ہے ۔ طغیانا اور کفرا اس کی تمیز ہیں ۔ آیت نمبر ۔ 65۔66، دنوں میں لو شرطیہ ہیں ۔ اس لیے افعال ماضی کا ترجمہ اس لحاظ سے ہو گا ۔ ساء آفاقی صداقت ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:49، نوٹ ۔2)

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں