{الَّذِیۡنَ یَتَرَبَّصُوۡنَ بِکُمۡ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ۫ۖ وَ اِنۡ کَانَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نَصِیۡبٌ ۙ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَسۡتَحۡوِذۡ عَلَیۡکُمۡ وَ نَمۡنَعۡکُمۡ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لَنۡ یَّجۡعَلَ اللّٰہُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سَبِیۡلًا ﴿۱۴۱﴾٪}
[ الَّذِیْنَ : (یہ) وہ لوگ (ہیں) جو ] [ یَتَرَبَّصُوْنَ : انتظار کرتے ہیں ] [ بکُمْ : تمہارے بارے میں ] [ فَاِنْ : تمہارے بارے میں ] [ کَانَ : ہوتی ہے ] [ لَـکُمْ : تمہارے لیے ] [ فَتْحٌ : کوئی فتح ] [ مِّنَ اللّٰہِ : اللہ (کی طرف) سے ] [ قَالُوْآ : تو وہ لوگ کہتے ہیں ] [ اَلَمْ نَـکُنْ : کیا ہم نہیں تھے ] [ مَّعَکُمْ : تمہارے ساتھ ] [ وَاِنْ : اور اگر ] [ کَانَ : ہوتا ہے] [ لِلْکٰفِرِیْنَ : کافروں کے لیے ] [ نَصِیْبٌ : کوئی حصہ ] [ قَالُوْآ : تو وہ کہتے ہیں ] [ اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ : کیا ہم قابو یافتہ نہ تھے ] [ عَلَیْکُمْ : تم پر ] [ وَنَمْنَعْکُمْ : اور کیا ہم نے نہیں بچایا تم کو] [ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں سے ] [ فَاللّٰہُ : پس اللہ ] [ یَحْکُمُ : فیصلہ کرے گا ] [ بَیۡنَکُمۡ : تم لوگوں کے درمیان ] [ یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ : قیامت کے دن ] [ وَلَنْ یَّجْعَلَ : اور ہرگز نہیں بنائے گا ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ لِلْکٰفِرِیْنَ: کافروں کے لیے ] [ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں پر ] [ سَبِیْلاً : کوئی الزام]
حَاذَ یَحُوْذُ (ن) حَوْذًا : حفاظت کرنا‘ نگہبانی کرنا۔
اِسْتَحْوَذَ یَسْتَحْوِذُ (استفعال) اِسْتِحْوَاذًا : گھیر لینا‘ غالب ہونا‘ آیت زیر مطالعہ۔
نوٹ (1) : سورۃ النساء مدنی ہے۔ اس سے پہلے مکی دور میں سورۃ الانعام کی آیت 68 میں یہی حکم آ چکا تھا جس کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
نوٹ (2) : اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور مذاق اڑانے کے مفہوم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے قیامت تک کے لیے ان لو گوں کو بھی شامل کیا ہے جو قرآن کی غلط تفسیر کریں یا اس کے معانی میں تحریف کریں یا بدعات نکالیں (مظہری‘ ج 2 ‘ ص 263)۔ تفسیر بحر محیط میں ہے کہ ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس بات کا زبان سے کہنا گناہ ہے اس کا کانوں سے بااختیار سننا بھی گناہ ہے۔ اس بارے میں اختلاف رائے ہے کہ جب وہ اس گفتگو کو ختم کر کے کوئی بات شروع کر دیں تو پھر ایسے لوگوں کی مجلس میں شرکت کرنا جائز ہے یا نہیں۔ تفسیر مظہری میں دونوں آراء کی تطبیق اس طرح کی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کی مجلس میں بلاضرورت شرکت کرناتو حرام ہے‘ البتہ کسی شرعی ضرورت کے تحت یا دعوت و تبلیغ کے لیے شرکت کی جائے تو جائز ہے (منقول از معارف القرآن)۔
نوٹ (2) : دیندار لوگوں کی محفل میں اگر شخصیات زیر بحث ہوں اور غیبت و بہتان کا بازار گرم ہو‘ تو اللہ کے حکم کی یہ خلاف ورزی بھی اس کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اوّل انہیں اس کام سے روکیں اور اگر نہ مانیں تو احتجاجاً واک آئوٹ کر جائیں۔"