{اُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ۫ وَ لَا یَجِدُوۡنَ عَنۡہَا مَحِیۡصًا ﴿۱۲۱﴾}
[ اُولٰٓئِکَ : یہ لوگ ہیں ] [ مَاْوٰىہُمْ : جن کا ٹھکانہ ] [ جَہَنَّمُ : جہنم ہے ] [ وَلاَ یَجِدُوْنَ : اور وہ نہیں پائیں گے ] [ عَنْہَا : اس سے ] [ مَحِیْصًا: کوئی بچنے کی جگہ]
ح ی ص
حَاصَ یَحِیْصُ (ض) حَیْصًا : کسی چیز سے بچنا‘ ہٹنا۔
مَحِیْصٌ (اسم الظرف) : بچنے کی جگہ۔ آیت زیر مطالعہ۔
نوٹ : آیت میں جس ردوبدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے اللہ نے اسے پیدا نہیں کیا ہے ‘ اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے‘ اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے‘ اس آیت کی رو سے شیطان کی گمراہ کن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً رہبانیت‘ مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنانا‘ عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدن کے ان شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بےشمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کر رہے ہیں ‘ دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالق کائنات کے ٹھہرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن)"
{وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیۡلًا ﴿۱۲۲﴾}
[ وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو ] [ اٰمَنُوْا : ایمان لائے ] [ وَعَمِلُوا : اور عمل کیے ] [ الصّٰلِحٰتِ : نیکی کے ] [ سَنُدْخِلُہُمْ : ہم عنقریب داخل کریں گے ان کو ] [ جَنّٰتٍ : ایسے باغات میں] [ تَجْرِیْ : بہتی ہیں ] [ مِنْ تَحْتِہَا : جن کے نیچے سے ] [ الْاَنْہٰرُ : نہریں ] [ خٰلِدِیْنَ : ایک حالت میں رہتے ہوئے ] [ فِیۡہَاۤ : اس میں ] [ اَبَدًا : ہمیشہ ] [ وَعْدَ اللّٰہِ : (ہو چکا) اللہ کا وعدہ ] [ حَقًّا: حق ہوتے ہوئے ] [ وَمَنْ : اور کون ] [ اَصْدَقُ : زیادہ سچا ہے ] [ مِنَ اللّٰہِ : اللہ سے ] [ قِیْلاً: بلحاظ بات کے ]
ترکیب :’’ وَعْدَ اللّٰہِ‘‘ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ کسی فعل محذوف کا مفعول ہے۔ وہ فعل ’’ قَدْ وَقَعَ‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ ’’ حَقًّا‘‘ حال ہے اور ’’ قِیْلًا‘‘ تمیز ہے۔ ’’ بِاَمَانِیِّکُمْ‘‘ اگر ’’ لَـیْسَ‘‘ کی خبر ہوتی پھر ’’ لَـیْسَ‘‘ کے بجائے ’’ لَـیْسَتْ‘‘ آتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ خبر نہیں ہے اور ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم اور خبر دونوں محذوف ہیں جو کہ ’’ اَمْرُ الْقِیٰمَۃِ وَاجِبًا‘‘ ہو سکتا ہے۔ اس طرح ’’ بِاَمَانِیِّکُمْ‘‘ متعلق خبر ہے اور اس پر ’’ بِ‘‘ مطابقت کا ہے۔ ’’ وَلَا اَمَانِیِّ‘‘ کی جر بتا رہی ہے کہ یہ ’’ بِ‘‘ پر عطف ہے۔ ’’ یُجْزَ‘‘ دراصل مضارع مجہول ’’ یُجْزٰی‘‘ ہے‘ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوا تو ’’ ی‘‘ گر گئی۔ ’’ وَلَا یَجِدْ‘‘ کا مفعول ’’ وَلِـیًّا‘‘ اور ’’ نَصِیْرًا‘‘ ہیں۔ ’’ مِنْ ذَکَرٍ‘‘ کا ’’ مِنْ‘‘ بیانیہ ہے۔’’ حَنِیْفًا‘‘ حال ہے۔ اس کو ’’ اِبْرٰھِیْمَ‘‘ کا حال بھی مانا جا سکتا ہے اور ’’ اِتَّـبَعَ‘‘ کی ضمیر فاعلی کا بھی۔ ہماری ترجیح ہے کہ اس کو ضمیر فاعلی کا حال مانا جائے ۔"