{وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ کَانُوۡا لَکُمۡ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ﴿۱۰۱﴾}
[ وَاِذَا : اور جب کبھی] [ ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو] [ فِی الْاَرْضِ : زمین میں ] [ فَلَیْسَ : تو نہیں ہے ] [ عَلَیْکُمْ : تم پر ] [ جُنَاحٌ : کوئی گناہ ] [ اَنْ : کہ ] [ تَقْصُرُوْا : تم کمی کرو ] [ مِنَ الصَّلٰوۃِ : نماز میں سے ] [ اِنْ : اگر ] [ خِفْتُمْ : تمہیں خوف ہو ] [ اَنْ : کہ ] [ یَّفْتِنَکُمُ : تمہیں تکلیف دیں گے] [ الَّذِیْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ] [ کَفَرُوْا : کفر کیا ] [ اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ : یقینا کافر] [ کَانُوْا : ہیں] [ لَــکُمْ : تمہارے لیے ] [ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا : کھلے دشمن ]
ق ص ر
قَصَرَ یَقْصُرُ(ن) قُصُوْرًا : (1) ناقص ہونا‘ سست ہونا (لازم)۔ (2) ناقص کرنا‘ نیچا رکھنا‘ کمی کرنا (متعدی)۔ آیت زیر مطالعہ ۔
قَاصِرٌ (اسم الفاعل) : نیچا رکھنے والا ‘ کمی کرنے والا ۔ {وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ} (صٓ:52) ’’ اور ان کے پاس نگاہ نیچی رکھنے والیاں ہیں۔‘‘
قَصَرَ یَقْصِرُ(ض) قَصْرًا : (1) در و دیوار مضبوط کرنا۔ (2) رہائش دینا۔
قَصْرٌ ج قُصُوْرٌ : محل ۔{اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ ﴿ۚ۳۲﴾ } (المرسلت) ’’ بے شک وہ (دوزخ) پھینکے گی چنگاریاں محل کی مانند۔‘‘ {وَ یَجۡعَلۡ لَّکَ قُصُوۡرًا ﴿۱۰﴾} (الفرقان) ’’ اور وہ بنائے گا آپؐ کے لیے محلات۔‘‘
مَقْصُوْرٌ (اسم المفعول) : رہائش دیا ہوا ۔ {حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِی الۡخِیَامِ ﴿ۚ۷۲﴾} (الرحمٰن) ’’ رہائش دی ہوئی حوریں ہیں خیموں میں۔‘‘
اَقْصَرَ (افعال) اِقْصَارًا : گھٹانا ‘ کم کرنا۔ {یَمُدُّوۡنَہُمۡ فِی الۡغَیِّ ثُمَّ لَا یُقۡصِرُوۡنَ ﴿۲۰۲﴾} (الاعراف) ’’ وہ بڑھاتے ہیں ان کی گمراہی میں پھر گھٹاتے نہیں۔‘‘
قَصَّرَ (تفعیل) تَقْصِیْرًا : کم کرنا‘ تراشنا۔
مُقَصِّرٌ (اسم الفاعل) : تراشنے والا۔ {مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ} (الفتح:27) ’’ مونڈنے والے اپنے سروں کو اور تراشنے والے۔‘‘
ترکیب : ’’ جُنَاحٌ‘‘ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے اور ’’ لَـیْسَ‘‘ کا اسم ہے۔ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ عَلَیْکُمْ‘‘ قائم مقام خبر ہے۔ ’’ اِنَّ‘‘ کا اسم ’’ الْـکٰفِرِیْنَ‘‘ اور آگے ’’ کَانُوْا‘‘ سے ’’ مُبِیْنًا‘‘ تک پور اجملہ اس کی خبر ہے۔ ’’ کَانُوْا‘‘ کا اسم اس میں ’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ اَلْـکٰفِرِیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ عَدُوًّا مُّبِیْنًا‘‘ اس کی خبر ہے۔ ’’ کُنْتَ‘‘ اور’’ اَقَمْتَ‘‘ افعال ماضی ہیں لیکن ان سے پہلے ’’ اِذَا‘‘ شرطیہ آیا ہے اس لیے ان کا ترجمہ مستقبل میں ہو گا۔ ’’ طَائِفَۃٌ اُخْرٰی‘‘ نکرہ مخصوصہ ہے اور ’’ لَمْ یُصَلُّوْا‘‘ اس کی خصوصیت ہے۔ ’’ قِیٰمًا‘ قُعُوْدًا‘‘ اور ’’ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ‘‘ یہ تینوں حال ہیں۔ ’’ اِنَّ الصَّلٰوۃَ‘‘ سے ’’ مَوْقُوْتًا‘‘ تک کے جملے کی بھی وہی ترکیب ہے جو اوپر ’’ اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ سے ’’ مُبِیْنًا‘‘ تک کے جملے کی دی گئی ہے۔"