{وَ یَقُوۡلُوۡنَ طَاعَۃٌ ۫ فَاِذَا بَرَزُوۡا مِنۡ عِنۡدِکَ بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ غَیۡرَ الَّذِیۡ تَقُوۡلُ ؕ وَ اللّٰہُ یَکۡتُبُ مَا یُبَیِّتُوۡنَ ۚ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا ﴿۸۱﴾}
[ وَیَـقُوْلُوْنَ: اور وہ لوگ کہتے ہیں ] [ طَاعَۃٌ: فرمانبرداری ہے ] [ فَاِذَا: پھر جب ] [ بَرَزُوْا: وہ نکلتے ہیں ] [ مِنْ عِنْدِکَ: آپؐ کے پاس سے ] [ بَیَّتَ: تورات میں مشورہ کرتا ہے ] [ طَـآئِفَۃٌ : ایک گروہ ] [ مِّنْہُمْ : ان میں سے ] [ غَیْرَ الَّذِیْ: اس کے علاوہ جو ] [ تَقُوْلُ: آپ کہتے ہیں ] [ وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [ یَکْتُبُ : لکھتا ہے ] [ مَا : اس کو جو ] [ یُبَیِّتُوۡنَ: وہ لوگ رات میں مشورہ کرتے ہیں] [ فَاَعْرِضْ : تو آپؐ اعراض کریں ] [ عَنْہُمْ : ان سے ] [ وَتَوَکَّلْ: اور بھروسہ کریں] [ عَلَی اللّٰہِ: اللہ پر ] [ وَکَفٰی: اور کافی ہے ] [ بِاللّٰہِ: اللہ ] [ وَکِیْلاً: بطور کارساز کے]
ترکیب: ’’ طَاعَۃٌ‘‘ اگر ’’ یَـقُوْلُـوْنَ‘‘ کا مفعول ہوتا تو ’’ طَاعَۃً‘‘ آتا‘ اس لیے یہ ’’ یَـقُوْلُوْنَ‘‘ کا مقولہ ہے اور direct tense میں آیا ہے۔ ’’ بَیَّتَ‘‘ کا فاعل ’’ طَائِفَۃٌ‘‘ ہے جو عاقل کی جمع مکسر ہے۔ اس لیے اس کا فعل واحد مذکر کے صیغے میں بھی جائز ہے۔ ’’ تَقُوْلُ‘‘ کا فاعل اس میں ’’ ھِیَ‘‘ کی ضمیر ہے جو ’’ طَائِفَۃٌ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ لَعَلِمَہُ‘‘ میں لام جوابِ شرط کا ہے اور فعل ’’ عَلِمَ‘‘ کا مفعول ’’ ہٗ‘‘ کی ضمیر ہے‘ جبکہ اس کا فاعل ’’ اَلَّذِیْنَ‘‘ ہے۔ ’’ وَلَوْلَا‘‘ میں ’’ لَــوْ‘‘ شرطیہ ہے۔ ’’ فَضْلُ اللّٰہِ‘‘ اور ’’ رَحْمَتُہٗ‘‘ مبتدأ ہیں اور ان کی خبر محذوف ہے۔"
{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ﴿۸۲﴾}
[ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ: تو کیا یہ لوگ غور وفکر نہیں کرتے] [ الْقُرْاٰنَ : قرآن میں ] [ وَلَوْ: اور اگر ] [ کَانَ: وہ ہوتا ] [مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ: غیر اللہ کے پاس سے] [ لَوَجَدُوْا: تو یہ پاتے ] [ فِیْہِ : اس میں ] [ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا: بہت زیادہ اختلاف ]"
{وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۳﴾}
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ جَآءَ : آتی ہے ] [ ہُمْ : ان کے پاس ] [ اَمْرٌ : کوئی بات ] [ مِّنَ الْاَمْنِ: امن میں سے ] [ اَوِ الْخَوْفِ: یا خوف میں سے ] [ اَذَاعُوْا : تو وہ لوگ چرچا کرتے ہیں] [ بِہٖ: اس کا ] [ وَ: حالانکہ ] [ لَوْ: اگر ] [ رَدُّوْہُ: وہ لوٹا دیتے اس کو ] [ اِلَی الرَّسُوْلِ: رسولؐ کی طرف ] [ وَاِلٰٓی اُولِی الْاَمْرِ: اور اختیار والوں کی طرف] [ مِنْہُمْ : اپنوں میں سے ] [ لَـعَلِمَہُ : تو علم حاصل کرتے اس کا ] [ الَّذِیْنَ: وہ لوگ جو ] [ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ : حقیقت معلوم کرسکتے ہیں اس کی] [ مِنْہُمْ: ان میں سے ] [ وَلَوْلاَ : اور اگر نہ ہوتا] [ فَضْلُ اللّٰہِ : اللہ کا فضل ] [ عَلَیْکُمْ: تم لوگوں پر ] [ وَرَحْمَتُہٗ : اور اس کی رحمت ] [ لاَتَّـبَعْتُمُ : تو تم لوگ پیروی کرتے ] [ الشَّیْطٰنَ : شیطان کی ] [ اِلاَّ قَلِیْلاً : سوائے تھوڑے سے لوگوں کے]
ذ ی ع
ذَاعَ۔ یَذِیْعُ (ض) ذِیْـعًا : کسی چیز کا پھیلنا‘ جیسے بدن میں کھجلی پھیلنا‘ بستی میں خبر پھیلنا۔
اَذَاعَ ۔ یُـذِیْعُ (افعال) اِذَاعَۃً : خبر پھیلنا‘ راز فاش کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔