{وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ رَاَیۡتَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡکَ صُدُوۡدًا ﴿ۚ۶۱﴾}
[ وَاِذَا : اور جب بھی ] [ قِیْلَ : کہا جاتاہے ] [ لَہُمْ : ان سے ] [ تَـعَالَــوْا : تم لوگ آئو ] [ اِلٰی مَــآ : اس کی طرف جو ] [ اَنْزَلَ : اتارا ] [ اللّٰہُ : اللہ نے] [ وَاِلَی الرَّسُوْلِ : اور ان رسولؐ کی طرف] [ رَاَیْتَ : تو آپؐ دیکھتے ہیں ] [ الْمُنٰفِقِیْنَ : منافقوں کو ] [ یَصُدُّوْنَ : (کہ) وہ لوگ رکتے ہیں ] [ عَنْکَ : آپؐ سے ] [ صُدُوْدًا : جیسے کہ رکا جاتا ہے ]"
{فَکَیۡفَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ثُمَّ جَآءُوۡکَ یَحۡلِفُوۡنَ ٭ۖ بِاللّٰہِ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡسَانًا وَّ تَوۡفِیۡقًا ﴿۶۲﴾}
[ فَکَیْفَ : تو کیسا ہو گا ] [ اِذَآ : جب ] [ اَصَابَتْہُمْ : آن لگے گی ان کو ] [ مُّصِیۡبَۃٌۢ : کوئی مصیبت ] [ بِمَا : اس کے سبب سے جو ] [ قَدَّمَتْ : آگے بھیجا] [ اَیْدِیْہِمْ : ان کے ہاتھوں نے ] [ ثُمَّ : پھر ] [ جَآءُوۡکَ : وہ آئیں گے آپؐ کے پاس] [ یَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے ] [ بِاللّٰہِ : اللہ کی ] [ اِنْ : (کہ) نہیں] [ اَرَدۡنَاۤ : ارادہ کیا ہم نے ] [ اِلَّآ : مگر ] [ اِحْسَانًا : بھلائی کا ] [ وَّتَوْفِیْقًا : اور ہم آہنگ کرنے کا ]
ح ل ف
حَلَفَ ۔ یَحْلِفُ (ض) حَلْفًا : قسم کھا کر عہد و پیمان کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔
حَلَّافٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ) : بار بار اور کثرت سے قسم کھانے والا ۔ {فَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ ۔ } (القلم) ’’ اور تو کہنا مت مان ہر ایک بےوقعت قسمیں کھانے والے کا۔‘‘"
{اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُ اللّٰہُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ٭ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ عِظۡہُمۡ وَ قُلۡ لَّہُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَوۡلًۢا بَلِیۡغًا ﴿۶۳﴾}
[ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ : وہ لوگ ہیں کہ ] [ یَعْلَمُ : جانتا ہے ] [ اللّٰہُ : اللہ ] [ مَا : اس کو جو ] [ فِیْ قُلُوْبِہِمْ : ان کے دلوں میں ہے ] [ فَاَعْرِضْ : تو آپؐ اعراض کریں] [ عَنْہُمْ : ان سے ] [ وَ: اور ] [ عِظْہُمْ : آپؐ نصیحت کریں ان کو ] [ وَقُلْ : اور آپؐ کہیں ] [ لَّـہُمْ : ان سے ] [ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ : ان کے جی (یعنی دل) میں] [ قَوْلاً م بَلِیْغًا: ایک پہنچنے (یعنی اُترنے) والی بات]
نوٹ: آیت 60 اپنے حکم اور الفاظ کے اعتبار سے عام ہے۔ یہ ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے جوکتاب و سنت سے ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے جائے ۔ یہاں طاغوت سے یہی مراد ہے۔ (ابن کثیر)"