{وَ کَیۡفَ تَاۡخُذُوۡنَہٗ وَ قَدۡ اَفۡضٰی بَعۡضُکُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ وَّ اَخَذۡنَ مِنۡکُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ﴿۲۱﴾}
[ وَکَیْفَ : اور کیسے] [ تَاْخُذُوْنَہٗ : تم لوگ لو گے اس کو] [ وَ: درآنحالیکہ] [ قَدْ اَفْضٰی : صحبت کر چکا ہے ] [ بَعْضُکُمْ : تم میں سے کوئی] [ اِلٰی بَعْضٍ : کسی سے ] [ وَّاَخَذْنَ : اور انہوں نے لیا ] [ مِنْکُمْ : تم سے ] [ مِّیْـثَاقًا غَلِیْظًا: ایک پکا وعدہ]
ف ض و
فَضَا یَفْضُوْ (ن) فَضَائً : کسی چیز یا جگہ کا کشادہ ہونا۔
اَفْضٰی (افعال) اِفْضَائً : کشادہ کرنا‘ صحبت کرنا۔ آیت زیر مطالعہ۔"
{وَ لَا تَنۡکِحُوۡا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدۡ سَلَفَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقۡتًا ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿٪۲۲﴾}
[ وَلاَ تَـنْکِحُوْا : اور تم لوگ نکاح مت کرو] [ مَا : اس سے‘ جس سے] [ نَــکَحَ : نکاح کیا ] [ اٰبَــآؤُکُمْ : تمہارے اجداد نے] [ مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے ] [ اِلاَّ : سوائے اس کے کہ ] [ مَا : جو] [ قَدْ سَلَفَ : گزر گیا ہے ] [ اِنَّـہٗ : یقینا یہ ] [ کَانَ : ہے] [ فَاحِشَۃً : بےحیائی] [ وَّمَقْتًا : اور بیزاری] [ وَ سَآءَ: اور برا ہے ] [ سَبِیْلاً : بلحاظ راستے کے]
م ق ت
مَقَتَ ۔ یَمْقُتُ (ن) مَقْتًا : نفرت کرنا‘ بیزار ہونا۔
مَقْتٌ (اسم ذات) : نفرت‘ بیزاری‘ آیت زیر مطالعہ۔
نوٹ: ان آیات میں ان غلط رسوم کی ممانعت ہے جو اسلام سے پہلے خواتین کے ضمن میں عام تھیں۔ عورت کی جان اور مال کو مرد کی ملکیت تسلیم کیا جاتا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد وارث اس کے ترکہ کی طرح اس کی بیوہ کے بھی مالک بن جاتے تھے۔ اس سے اگر خود نکاح کرتے تو مہر نہیں ادا کرتے تھے اور اگر کسی دوسرے سے نکاح کراتے تو مہر خود رکھ لیتے تھے۔ بیوی کو اگر میکے یا کہیں اور سے کوئی چیز ملتی تو شوہر اس کا مالک ہوتا تھا۔ اس طرح کی اور رسومات کی نفی کرتے ہوئے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عورت کی شخصیت کے حق کو اور اس کے حق ملکیت کو تسلیم کرنے کا حکم دیا ہے۔"