{لَقَدۡ سَمِعَ اللّٰہُ قَوۡلَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیۡرٌ وَّ نَحۡنُ اَغۡنِیَآءُ ۘ سَنَکۡتُبُ مَا قَالُوۡا وَ قَتۡلَہُمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ۙ وَّ نَقُوۡلُ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ ﴿۱۸۱﴾}
[لَقَدْ سَمِعَ : بےشک سن لیا ہے ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [قَوْلَ الَّذِیْنَ : ان لوگوں کی بات جنہوں نے] [قَالُوْآ : کہا ] [اِنَّ : کہ ] [اللّٰہَ : اللہ ] [فَقِیْرٌ : فقیر ہے ] [وَّنَحْنُ : اور ہم ] [اَغۡنِیَآءُ : مالدار ہیں] [سَنَـکْتُبُ : ہم لکھ لیں گے] [مَا : اس کو جو ] [قَالُوْا : انہوں نے کہا ] [وَقَتْلَہُمُ : اور (لکھیں گے) ان کا قتل کرنا] [الۡاَنۡۢبِیَآءَ : نبیوں کو ] [بِغَیْرِ حَقٍّ: کسی حق کے بغیر] [وَّنَـقُوْلُ : اور ہم کہیں گے ] [ذُوْقُوْا : تم لوگ چکھو] [عَذَابَ الْحَرِیْقِ: بھڑکائی گئی آگ کا عذاب]
ز ب ر
زَبُرَ (ک) زَبَارَۃً : بڑے جسم والا ہونا‘ موٹا ہونا‘ مضبوط ہونا۔ َ
زُبْرَۃً ج زُبَرٌ : لوہے کا بڑا ٹکڑا‘ لوہے کی سل۔{اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ} (الکہف:96) ’’ تم لوگ لائو میرے پاس لوہے کی سلیں۔‘‘ َ
زَبُوْرٌ ج زُبُرٌ : (1) موٹے حروف میں لکھی ہوئی عبارت‘ کتابچہ‘ صحیفہ (2) کسی چیز کا ٹکڑا۔ {وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا ﴿۱۶۳﴾ۚ} (النسائ) ’’ اور ہم نے دیا دائود کو ایک صحیفہ‘‘۔{فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ زُبُرًا ؕ} (المؤمنون:53) ’’ تو ان لوگوں نے بانٹا اپنے کام کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے۔‘‘
ترکیب:’’ سَنَـکْتُبُ‘‘ کی ضمیر فاعلی ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ سَنَکْتُبُ‘‘ پر عطف ہونے اور اس کا مفعول ہونے کی وجہ سے ’’ قَتْلَھُمْ‘‘ حالت نصب میں ہے اور مصدر ’’ قَتْلَ‘‘ نے فعل کا کام کیا ہے۔’’ الۡاَنۡۢبِیَآءَ ‘‘ اس کا مفعول ہے۔ ’’ وَنَقُوْلُ‘‘ کی ضمیر فاعلی بھی ’’ اَللّٰہُ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ قَدَّمَتْ‘‘ کا فاعل ’’ اَیْدِیْکُمْ‘‘ ہے اور اس کی رفعی حالت ہے۔ ’’ تَاْکُلُہٗ‘‘ کی ضمیر مفعولی ’’ بِقُرْبَانٍ‘‘ کے لیے ہے اور ’’ اَلنَّارُ‘‘ اس کا فاعل ہے۔
نوٹ 1: جب سورۃ البقرۃ کی آیت 245 نازل ہوئی کہ کون ہے جو اللہ کو قرضہ دے تو یہود اپنی مجالس میں مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ آج کل اللہ تعالیٰ محتاج ہو گیا ہے ‘ اپنے غلاموں سے قرضہ مانگ رہا ہے (نعوذ باللہ)‘ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کی یہ بات ان کے قتل انبیاء کے جرم کے ساتھ لکھی جائے گی۔