اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾} 

[وَلِیُمَحِّصَ : اور (اس لیے ) کہ نکھار دے] [اللّٰہُ : اللہ ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جو] [اٰمَنُوْا : ایمان لائے] [وَیَمْحَقَ : اور تاکہ وہ گھٹائے] [الْکٰفِرِیْنَ : کافروں کو]"

{اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ یَعۡلَمَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۲﴾} 

[اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم لوگوں نے خیال کیا] [اَنْ تَدْخُلُوا : کہ تم لوگ داخل ہو گے] [الْجَنَّـۃَ : جنت میں ] [وَ : حالانکہ ] [لَمَّا یَعْلَمِ : ابھی تک نہیں جانا] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [الَّذِیْنَ : ان لوگوں کو جنہوں نے] [جٰہَدُوْا : جدوجہد کی ] [مِنْکُمْ : تم میں سے ] [وَیَعْلَمَ : اور تاکہ وہ جان لے ] [الصّٰبِرِیْنَ : ثابت قدم رہنے والوں کو]"

{وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ ۪ فَقَدۡ رَاَیۡتُمُوۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۱۴۳﴾٪} 

[وَلَـقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ : اور بےشک تم لوگ تمنا کرچکے تھے] [الْمَوْتَ : موت کی ] [مِنْ قَـبْلِ : اس سے پہلے][اَنْ : کہ ] [تَلْقَوْہُ: تم لوگ سامنے آتے اس کے ] [فَقَدْ رَاَ یْتُمُوْہُ : تو تم لوگ دیکھ چکے اس کو] [وَ : اس حال میں کہ ] [اَنْتُمْ: تم لوگ ] [ تَنْظُرُوْنَ: آنکھوں دیکھتے ہو]

 نوٹ : آیت 140 میں ایام کو گردش دینے کا ایک مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ ہم میں سے کون سچ مچ ایمان لایا ہے۔ پھر آیت 142 میں ایک دوسرے پیرائے میں اس کا اعادہ کیا گیا کہ جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ یہ نہ جان لے کہ کس نے اس کی راہ میں جدوجہد کی اور کون ثابت قدم رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے‘ پھر اس کے جان لینے کا کیا مطلب ہے۔ اس بات کو سمجھ لیں۔

 قرآن مجید میں متعددمقامات پر اللہ تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کے الفاظ آئے ہیں‘ حالانکہ اللہ کے لیے تو غیب ہے ہی نہیں‘ اس کے لیے تو ہر چیز ہر لمحہ الشہادۃ ہے۔ اس لیے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عالم الغیب کے الفاظ کا استعمال ہماری نسبت سے کیا جاتا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس کا بھی جاننے والا ہے جو ہمارے لیے غیب ہے۔ اسی طرح سے آیات زیر مطالعہ میں اور قرآن مجید میں دیگر مقامات پر‘ جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جان لینے کے الفاظ آئے ہیں ‘ وہ ہماری نسبت سے ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ جس بات کو ہم نہیں جانتے انہیں اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے‘ کھول دے یا ریکارڈ پر لے آئے۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں