اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

{وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿۸۱﴾} 

وَاِذْ : اور جب ] [اَخَذَ : لیا ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ : نبیوں کا عہد (انبیاء سے) ] [لَمَآ : جو کچھ ] [اٰتَـیْتُکُمْ : میں دوں تم لوگوں کو] [مِّنْ کِتٰبٍ : کسی کتاب سے ] [وَّحِکْمَۃٍ : اور کسی حکمت سے ] [ثُمَّ : پھر ] [جَآءَکُمۡ  : آئے تمہارے پاس ] [رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ : ایک تصدیق کرنے والا رسول] [لِّمَا : اس کی جو ] [مَعَکُمْ : تمہارے پاس ہے ] [لَتُؤْمِنُنَّ : تو تم لوگ لازماً ایمان لائو گے] [بِہٖ : اس پر ] [وَلَتَنْصُرُنَّہٗ : اور تم لوگ لازماً مدد کرو گے اس کی ] [قَالَ : (اللہ نے) کہا ] [ ءَ: کیا ] [اَقْرَرْتُمْ : اقرار کیا تم لوگوں نے ] [وَاَخَذْتُمْ : اور (کیا) پکڑا تم لوگوں نے] [عَلٰی ذٰلِکُمْ : اس پر ] [اِصْرِیْ : میرے عہد کو ] [قَالُوْآ : (انبیاء نے) کہا] [اَقْرَرْنَا : ہم نے اقرار کیا ] [قَالَ : (اللہ نے) کہا] [فَاشْہَدُوْا : پس تم لوگ گواہ ہو جائو] [وَاَنَا : اور میں ] [مَعَکُمْ : تمہارے ساتھ ہوں] [مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ: گواہی دینے والوں میں سے]

 ترکیب :’’ لَـمَا اٰتَیْتُـکُمْ‘‘ کا ’’ مَا‘‘ موصولہ ہے اور اس پر لامِ تاکید ہے۔ ’’ قَالَ‘‘ کا فاعل ’’ ھُوَ‘‘ کی ضمیر ہے جو اللہ کے لیے ہے اور ’’ قَالُوْا‘‘ کا فاعل’’ ھُمْ‘‘ کی ضمیر ہے جو’’ اَلنَّبِیِّیْنَ‘‘ کے لیے ہے۔ ’’ وَاَخَذْتُمْ‘‘ میں حرفِ استفہام’’ئَ‘‘ محذوف ہے اور اس کا مفعول ’’ اِصْرِیْ‘‘ ہے۔

نوٹ: دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو انبیاء و رُسل (علیہ السلام) بھیجے ہیں ‘ ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور کچھ کا نہیں ہے (النسائ:164۔ المؤمن:78) ۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ایک سے زیادہ انبیاء مبعوث رہے ہیں‘ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہما السلام) یا حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) ۔ ایک بستی والوں کا ذکر ہے جہاں بیک وقت تین انبیاء مبعوث ہوئے تھے (یٰسٓ:14) ۔ لیکن زیادہ تر یہ ہوتا تھا کہ ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرا نبی آتا تھا۔

 اس پس منظر میں یہ بات سمجھ لیں کہ جو انبیاءؑ اپنے بعد میں آنے والے نبی کا زمانہ نہیں پاتے تھے وہ اپنی قوم کو ان کی آمد کی خبر اور نشانیاں بتا کر تاکید کر جاتے تھے کہ جب وہ آئیں تو تم لوگ لازماً ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا۔ رسول کریم ﷺ سے پہلے تمام انبیاء و رُسل ؑکا یہ دستور رہا ہے۔ تاریخِ انبیاء میں یہ پہلا اور واحد موقع ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بار بار اور انتہائی تاکید کے ساتھ خبر دی ہے کہ اب انؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ آپؐ کے خاتم النبیین ہونے کا ایک بہت واضح ثبوت ہے۔"

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں