{قَالَ رَبِّ اجۡعَلۡ لِّیۡۤ اٰیَۃً ؕ قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمۡزًا ؕ وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ کَثِیۡرًا وَّ سَبِّحۡ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ ﴿٪۴۱﴾}
[قَالَ : (زکریاؑ نے) کہا] [رَبِّ : اے میرے ربّ] [اجْعَلْ : تو بنا ] [لِّیْ : میرے لیے ] [اٰیَۃً : ایک نشانی ] [قَالَ : (اللہ تعالیٰ نے) کہا] [اٰیَتُکَ : تیری نشانی ہے ] [اَلاَّ تُکَلِّمَ : کہ تو کلام نہیں کرے گا] [النَّاسَ : لوگوں سے] [ثَلٰـثَۃَ اَیَّامٍ : تین دن ] [اِلاَّ : مگر ] [رَمْزًا : اشارے سے ] [وَاذْکُرْ : اور تو یاد کر] [رَّبَّکَ : اپنے رب کو] [کَثِیْرًا : کثرت سے ] [وَّسَبِّحْ : اور تو تسبیح کر ] [بِالْعَشِیِّ : شاموں کو ] [وَالْاِبْکَارِ : اور صبح سویرے ]
ر م ز
رَمَزَ (ن۔ ض) رَمْزًا : اشاروں میں بات سمجھانا‘ اشارہ کرنا۔
رَمْزٌ (اسم ذات بھی ہے) : اشارہ۔ آیت زیر مطالعہ۔
ع ش و
عَشَا (ن) عَشْوًا : (1) آنکھ میں موتیا اُترنے کی وجہ سے دھندلا نظر آنا۔ (2) کسی طرف سے آنکھ بند کرنا‘ جی چرانا۔{وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ} (الزخرف:36) ’’ اور جو آنکھ چراتا ہے رحمن کی یاد سے۔‘‘
عِشَائٌ : رات کی ابتدائی تاریکی ۔ {وَ جَآءُوۡۤ اَبَاہُمۡ عِشَآءً یَّبۡکُوۡنَ ؕ﴿۱۶﴾ } (یوسف) ’’ اور وہ آئے اپنے والد کے پاس مغرب کے بعد روتے ہوئے۔‘‘
عَشِیَّۃٌ ج عَشِیٌّ : شام۔ {لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوۡ ضُحٰہَا ﴿٪۴۶﴾} (النٰزعٰت) ’’ وہ لوگ نہیں ٹھہرے مگر ایک شام یا اس کے دن چڑھے (وقت کا ایک حصہ) ۔‘‘
ترکیب :’’ اٰیَتُکَ‘‘ مبتدأ ہے‘ اس کی خبر محذوف ہے اور ’’ اَلاَّ تُکَلِّمَ‘‘‘ ’’ اٰیَۃُ‘‘ کا بدل ہے۔ ’’ اَلاَّ‘‘ دراصل ’’ اَنْ لَا‘‘ ہے اور ’’ اَنْ‘‘ نے ’’ تُکَلِّمَ‘‘ کو منصوب کیا ہے۔ اس کا مفعول ’’ النَّاسَ‘‘ ہے۔ ’’ ثَلٰثَۃَ‘‘ ظرف اور ’’ رَمْزًا‘‘ مستثنیٰ منقطع یا متصل ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ’’ وَاذْکُرْ‘‘ کا مفعول مطلق ’’ ذِکْرًا‘‘ محذوف ہے اور ’’ کَثِیْرًا‘‘ اس کی صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
نوٹ : لفظ ’’ رَمْزٌ‘‘ میں بنیادی مفہوم ہے ہونٹ کی حرکت سے اشارہ کر کے بات سمجھانا۔ جبکہ اَبرو اور آنکھ سے اشارہ کر کے بات سمجھانے کو ’’ غَمْزٌ‘‘ کہتے ہیں ‘ اور یہ لفظ باب تفاعل سے سورۃ المُطفّفین کی آیت 30 میں آیا ہے"