اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

 سُوْرَۃُ الفَاتِحَۃِ
(تسمیہ)

        قرآن کریم کی پہلی سورت کے کئی نام یا ’’لقب‘‘  کتابوں میں مذکور ہیں۔ مصاحف میں اس کا عنوان برصغیر اور بیشتر عرب اور افریقی ممالک میں اسی طرح لکھاجاتا ہے یعنی ’’سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ‘‘ ۔ البتہ بعض ممالک (مثلاً ترکی، ایران، نائیجیریا اور بعض دفعہ شام) کے مصاحف میں اس کا عنوان ’’سُوْرَۃُ الفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘ لکھا جاتا ہےـــ اور اس میں ’’الکتاب‘‘ سے مراد اللہ کی کتاب یعنی قرآن کریم ہی ہوتا ہے۔

        یہ سورۃ اکثر اہلِ علم کے نزدیک‘بلحاظِ نزول مکّی‘ سورت ہے۔ اور اس کی آیات کی کل تعداد جو بلا اختلاف سات (۷)ہے۔ تاہم اس بات میں اختلاف ہے کہ کہاں کہاں آیت ختم ہوتی ہے۔ مکی اور کوفی ’’طریقہ شمار‘‘ کے مطابق ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ اس سورۃ کی پہلی مکمل آیت ہے ـــباقی پانچ طریقہ ہائے شمار ـ یعنی مدنی اوّل وثانی، بصری، دمشقی اور حفصی ـــ کے مطابق ’’ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ پر اس سورت کی آیت نمبر۱ختم ہوتی ہے یعنی ’’بسم اللہ‘‘ا ٓیت کا جزوہے۔ ان پانچ طریقِ شمار آیات کے مطابق ’’اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ پر آیت نمبر۶ ختم ہوتی ہے جب کہ پہلے دو ـــ  مکی اور کوفی ـــ طریقۂ شمار کے مطابق وہاںـــ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ  پرـ اختتام آیت نہیں ہےـــ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ـــ بر صغیر میں سورۃ کے اس پہلے ’’عَلَیْھِمْ‘‘ کے بعد غیر کوفی آیت کا نشان ’’۵‘‘ ڈالا جاتا ہے۔ ’’پہلا‘‘ اس لئے لکھا ہے کہ سورۃ میں ’’عَلَیْھِمْ‘‘ دو دفعہ آیاہے۔

        لفظ ’’سُوْرَۃ‘‘ کی لغوی اصل کے بارے میں دو قول ہیں:

۱۔ پہلا قول:اس کا مادہ ’’س و ر‘‘ اور وزن ’’فُعْلَۃٌ‘‘ ہے۔ فعل ثلاثی مجرد سَارَ یَسُورُ سَوْرًا (باب نصر سے) کے معنی ہیں بلند ہونا دیوار پر چڑھنا اور اس مادہ سے ہی باب ’’تَفَعّل‘‘ کا ایک صیغہ فعل قرآن کریم(ص:۲۱) میں وارد ہوا ہے ـــ اور اس سے ہی ’’سُوْرٌ‘‘ بمعنی شہر کی فصیل (بیرونی دیوار)  آتا ہے اور یہ لفظ بھی قرآن کریم (الحدید: ۱۳) میں آیا ہے۔ اس لفظ (سُوْرٌ) کے ایک معنی درجہ اور منزلت بھی ہیں۔ اور عربی زبان میں کامل اور مکمل اونٹنی کو بھی ’’سُورَۃٌ‘‘ کہتے ہیں۔

۲۔ دوسرا قول: اس کا مادہ ’’س ء ر‘‘ اور وزن ’’ فُعْلَۃ‘‘ ہے۔ اس مادہ سے فعل ثلاثی مجرد    سَأَر یَسْأَرُ سُوْراً  (باب فتح سے ) اور سَئِرَ یَسْأَرُ سُؤْراً (باب سمع سے) ہر دو کے معنی ہیں باقی بچنا، کچھ حصہ باقی رہ جانا۔اور ’’سُوْرَۃٌ ‘‘ معنی ہیں بقایا حصّہ یا (صرف) ’’حصّہ‘‘ـــ اور ھمزۂِ ساکنہ ماقبل متحرک کو اس کی حرکت کے موافق حرف (ا، و، ی) کی صورت میں پڑھنا جائز ہے یعنی عرب اس طرح بھی بولتے ہیں۔ اس بناء پر’’سُؤْرَۃ ‘‘کو’’سُوْرَہٌ‘‘ بولنا بھی جائز ہے۔ ویسے یہ مادہ اور اس سے کوئی فعل قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا ہے ـــ اس طرح لفظ ’’سُوْرَۃ‘‘ میں ـــ رتبہ، درجہ، منزلت، ایک مکمل وحدت (unit)اور حصہ کے معنی شامل ہیں۔

اگلاصفحہ
پچھلا صفحہ

منتحب کریں:

شیئرکریں